28 نومبر 2025 - 13:19
بسیج طاقتور اور ملت ایران کی وسیع پشت پناہی سے بہرہ مند ہے / ایران جیسا ملک جیسے ملک کے ساتھ تعاون کا خواہشمند نہیں ہو سکتا، امام خامنہ ای + تصاویر

رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے کل [جمعرات 27 نومبر 2025ع‍ کی] شام قومی ٹیلی وژن سے اپنی نشری تقریر میں ایرانی عوام سے خطاب کرتے ہوئے، بسیج کو "یک عظیم سرمائے، عمومی-عوامی تحریک اور قومی طاقت میں اضافے کے ذریعے" کی حیثیت سے، مضبوط بنانے اور پورک طاقت سے جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، ایران پر حملے میں امریکہ اور صہیونی ریاست کی ـ کسی بھی مقصد کے حصول میں ـ ناکامی کو ان کی یقینی شکست قرار دیا اور عوام سے کچھ سفارشات کرتے ہوئے، آپ نے تمام لوگوں اور سیاسی دھڑوں سے قومی اتحاد برقرار رکھنے اور مضبوط بنانے کی اپیل کی / امریکی اپنے دوستوں کو بھی دھوکہ دیتے ہیں، یعنی جو ان کے دوست ہیں انہیں بھی فریب دیتے ہیں۔ وہ فلسطین پر حکومت کرنے والے مجرم صہیونی گینگ کی حمایت کرتے ہیں۔ تیل اور زیر زمین قدرتی وسائل کے لئے وہ دنیا میں کہیں بھی جنگ کی آگ بھڑکا سکتے ہیں، آج ان کی یکہ جنگ پسندی جنگ لاطینی امریکہ تک پہنچ چکی ہے۔ ایسی حکومت اس قابل نہیں کہ اسلامی جمہوریہ جیسی حکومت اس سے تعلق یا تعاون کی خواہشمند ہو۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے ملکی ذمہ داروں پر بسیج کی تعظیم و تکریم [اور اس کی عظمت کے لئے کام کرنے] کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، بسیج کو ایک قیمتی قومی تحریک، الہی محرکات اور ضمیر پر مبنی جذبات سے سرشار، خود اعتمادی اور غیرت مندی کی علامت قرار دیا اور فرمایا: فرمایا: بسیج کی چوتھی نسل، ـ یعنی ملک بھر کے پیارے نوجوان، ـ کام اور کوشش کے لئے تیار ہے، اور بسیج کی اس قیمتی اور انتہائی اہم تحریک کو، ملک میں مسلسل اور نسل در نسل مضبوط، مستقل، زیادہ مکمل اور زیادہ طاقتور انداز سے آگے بڑھنا چاہئے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: "بسیج جیسی تحریک کا وجود ہر ملک کے لئے راہ کُشا اور مفید ہے اور ایران جیسے ملک کے لئے ـ، جو بین الاقوامی غنڈوں اور بدمعاشوں کے سامنے جما کھڑا ہے، ـ سب سے زیادہ بسیج کی ضرورت ہے۔

امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے استحصالی طاقتوں کے حرص و لالچ اور مداخلت عوامی مزاحمت کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "مقاومت و مزاحمت کا عظیم عنصر، جس کی بنیاد ایران میں رکھی گئی اور اس کی پرورش ایران میں ہوئی، آج مغربی ممالک اور امریکہ سمیت دنیا بھر کے مختلف خطوں میں فلسطین اور غزہ کی حمایت میں عوامی مظاہروں کے دوران کے نعروں میں دکھائی دیتا ہے۔

آپ نے کہا کہ بسیج کی حیات و نشاط اور استعداد کو ظالموں کے خلاف دنیا کے مظلوم عوام کی مزاحمت کی نشوونما کا سبب قرار دیا اور فرمایا: دنیا کے بھر کے مظلومین مزاحمت و مقکومت کی ترقی اور نشوونما کے ساتھ محسوس کرتے ہیں کہ وہ طاقتور ہیں اور کوئی ہے جن ان کی پشت پناہی کرتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے بسیج کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا: "بسیج اپنے تنظیمی ڈھانچے میں، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی ایک شاخ ہے، جس کا چہرہ دشمنوں کے سامنے سخت اور مضبوط ہے اور عوام کے سامنے اس کا چہرہ خدمت گزار کا چہرہ ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بسیج کی وسیع پشت پناہی ہے جو پورے ملک میں ہر غیرتمند فرد اور گروہ میں، کام کے لئے مستعد، پرجوش اور پُرامید، معاشی، صنعتی، سائنسی شعبوں، یونیورسٹیوں، حوزہ ہائے علمیہ، پیداوار، کاروباری ماحول اور دیگر شعبوں میں پائی جاتی ہے۔

امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے "اس عام اور جامع تعریف کے ساتھ" بسیج کو فوجی، معاشی، صنعتی، تکنیکی غرضیکہ ہر شعبے میں دشمن کے منصوبوں کو ناکام بنانے والی قوت قرار دیا اور فرمایا: : وہ عزیز سائنسدان جو 12 روزہ جنگ میں شہید ہوئے، میزائلوں کے ڈیزائنر، بنانے والے اور چلانے والے، ہر وہ شخص جس نے مضبوط منطق اور واضح بیان کے ساتھ افواہوں اور وسوسوں کو طشت از بام کیا کیا، وہ فدا کار ڈاکٹر اور نرس جنہوں نے جنگ کے دوران ہسپتال نہیں چھوڑا، اور کھیلوں کے وہ چیمپئنز جو بین الاقوامی میدانوں میں اللہ، دین، ملک اور قوم کے سامنے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں، چاہے وہ بسیج کے تنظیمی رکن ہوں یا نہ ہوں، سب بسیجی ہیں۔

آپ نے مزید فرمایا: "امام خمینی (رضوان اللہ علیہ)، جو اپنے بسیجی ہونے پر فخر کرتے تھے، ایسی ہی جامع اور وسیع البنیاد بسیج کے خواہشمند تھے، بسیج جو کسی خاص طبقے تک محدود نہیں ہے، بلکہ تمام اقوام، پیشوں اور طبقات پر مشتمل ہے۔"

رہبر انقلاب اسلامی نے بسیج کے بارے میں اپنے آخری نکتے میں تمام سرکاری اداروں کے ذمہ داران پر زور دے کر فرمایا: ایک بسیجی کی طرح، ایمان، جذبے اور حوصلے اور غیرت کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دیں۔

عالمی اور علاقائی مسائل

امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں، علاقائی مسائل اور 12 روزہ جنگ کے بارے میں فرمایا: 12 روزہ جنگ میں، ایرانی عوام نے یقیناً امریکہ اور صہیونی ریاست، دونوں، کو شکست دی۔ وہ آئے، شر انگیزی کی، لیکن پٹ گئے اور خالی ہاتھ واپس چلے گئے اور اپنے کسی بھی مقصد کو حاصل نہ کر سکے، اور یہ ان کے لئے ایک حقیقی شکست تھی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ایران کے خلاف جنگ کے 20 سالہ اسرائیلی منصوبہ بندی کے بارے میں مختلف اقوال کا حوالہ دیتے ہوئے، آپ نے فرمایا: آپ نے ایسی جنگ کی منصوبہ بندی کی تھی جس میں وہ عوام کو بھڑکا کر نظام کے خلاف جنگ پر آمادہ کر سکیں، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہو گیا اور وہ اس طرح ناکام ہوئے کہ نظام سے اختلاف رکھنے والے بھی نظام کے دوش بدوش کھڑے ہو گئے اور ملک میں ایک عمومی اتحاد قائم ہو گیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: "بلا شبہہ، ہمیں بھی نقصانات اٹھانا پڑے، اور جنگ کی نوعیت کے تقاضے کے مطابق ہم میں سے بہت عزیز جانیں رخصت ہو گئیں، لیکن اسلامی جمہوریہ نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ عزم اور طاقت کا مرکز ہے اور وہ تشہیری مہمات سے گھبرائے بغیر، پوری طاقت کے ساتھ کھڑے ہونے اور فیصلہ کرنے اور عزم و ارادہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ نیز، حملہ آور دشمن کو ہونے والا مادی نقصانات ہمارے اپنے مادی نقصانات سے کہیں زیادہ تھے۔"

آپ نے 12 روزہ جنگ میں امریکہ کو پہنچنے والے عظیم نقصانات کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: "امریکہ کو اس جنگ میں سخت نقصان پہنچا، کیونکہ جدید ترین جارحانہ اور دفاعی ہتھیاروں کے استعمال کے باوجود وہ [ہماری] قوم کو فریب دینے اور انہیں اپنے ساتھ ملانے کے اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا، بلکہ عوام کا اتحاد مزید مضبوط ہؤا اور انہوں نے امریکہ کو بھی ناکام بنا دیا۔"

امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے غزہ کے سانحے، ـ جو خطے کی تاریخ کے اہم ترین سانحات میں سے ایک ہے، ـ میں صہیونی ریاست کی سخت بے عزتی اور بدنامی کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: "امریکہ بھی، جو اس معاملے میں غاصب ریاست کے ساتھ کھڑا رہا، سخت بدنام اور بے عزت ہؤا، کیونکہ دنیا کے لوگ جانتے ہیں کہ امریکہ کے بغیر صہیونی ریاست اتنے المیے پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔"

آپ نے آج کی دنیا میں 'سب سے زیادہ قابل نفرت شخص' 'صہیونی ریاست کے سربراہ' کو، اور 'سب سے زیادہ قابل نفرت حکومتی نظام اور گروہ' کو 'صہیونی ریاست' قرار دیا۔ اور فرمایا: "چونکہ امریکہ ان کے ساتھ کھڑا ہے، اس لئے صہیونیوں کی نفرت امریکہ تک بھی سرایت کر گئی ہے۔"

رہبر انقلاب اسلامی نے دنیا بھر میں مداخلتوں کو امریکہ کی اس کی بڑھتی ہوئی تنہائی کا دوسرا سبب قرار دیا اور فرمایا: "کسی بھی خطے میں امریکی مداخلت جنگ یا نسل کشی، تباہی اور بے خانمانی [اور انسانوں کے بے گھر ہونے] کا باعث ہے۔"

آپ نے یوکرین کی نقصان دہ اور لا حاصل جنگ کو امریکی مداخلت کا ایک نمونہ قرار دیا اور فرمایا: "امریکہ کے موجودہ صدر، ـ جو کہتا تھا کہ وہ اس جنگ کو تین دنوں میں حل کر دیں گے، ـ اب تقریباً ایک سال بعد، اس ملک پر 28 نکاتی پلان مسلط کر رہا ہے، حالانکہ امریکہ نے خود اسے اس جنگ میں دھکیل دیا تھا۔"

امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے لبنان پر صہیونی ریاست کے حملوں، شام پر جارحیت، مغربی کنارے میں جرائم، اور غزہ کی المناک صورتحال کو، پلید [یہودی] ریاست کی جنگ اور جرائم کے تئیں، امریکہ کی کھلم کھلا حمایت کا دوسرا نمونہ قرار دیا اور فرمایا: "البتہ، وہ افواہیں پھیلاتے ہیں کہ ایرانی حکومت نے فلاں ملک کے ذریعے [تعاون کے حوالے سے] امریکہ کو پیغام بھیجا ہے،  یہ محض جھوٹ ہے اور ایسی کوئی بات ہرگز نہیں ہوئی۔"

رہبر انقلاب نے فرمایا: "امریکی اپنے دوستوں سے بھی غداری کرتے ہیں، یعنی ان لوگوں سے بھی خیانت کرتے ہیں جو ان کے دوست ہیں؛ فلسطین پر مسلط جرائم پیشہ صہیونی گینگ کی حمایت کرتے ہیں؛ وہ تیل اور زیر زمین وسائل کے لئے دنیا کے کسی بھی حصے میں جنگ کی آگ بھڑکانے کے لئے تیار ہیں، اور آج یہ جنگ پرستی کا دائرہ لاطینی امریکہ تک بھی پھیل چکا ہے [وینزویلا کے خلاف سازشوں کی طرف اشارہ]، تو یقینا اس طرح کی حکومت اس لائق نہیں ہے جہ اسلامی جمہوریہ جیسی حکومت اس کے ساتھ رابطے اور تعاون کرنا چاہے۔

امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے اپنی تقریر کے آخری حصے میں فرمایا:

اور یہاں چند جملے اپنے فرزندوں، ایران کی پیاری قوم سے، چند سفارشات کرتا چلوں:

• دشمن کے مقابلے میں سب ساتھ رہیں۔ مختلف طبقات اور سیاسی دھڑوں کے درمیان اختلافات موجود ہیں، لیکن لازم ہے کہ ہم دشمن کے مد مقابل، 12 روزہ جنگ کے ایام کی طرح، ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوں، کیونکہ یہ یکجہتی ہمارے پیارے ملک کی قومی طاقت کا ایک بہت اہم عنصر ہے۔

• [ہم پر لازم ہے کہ] صدر محترم اور خدمت گزار حکومت کی حمایت کریں؛ حکومت نے اچھے کاموں کا آغاز کیا ہے، جن میں شہید رئیسی کے ادھورے کاموں کو جاری رکھنا بھی شامل ہے؛ یہ کام ہو رہے ہیں، اور ان شاء اللہ عوام اس کے نتائج دیکھیں گے۔ حکومت کی حمایت ہونی چاہئے؛ ایک بہت بڑا بوجھ حکومت کے کندھوں پر ہے؛ ملکی انتظام آسان کام نہیں ہے، مشکل کام ہے اور یہ کام حکومت کے ذمے ہے۔

• ہم سب کو اسراف سے اجتناب کرنا چاہئے؛ جیسے پانی میں اسراف، روٹی میں اسراف، گیس میں اسراف، پٹرول میں اسراف، اشیائے خورد و نوش اور روزمرہ غذائی اشیاء میں اسراف۔ اسراف سے پرہیز کرنا چاہئے، جو ملک اور خاندانوں کے لئے اہم ترین خطرات میں سے ایک ان چیزوں میں اسراف ہے؛ اور اگر اسراف نہ ہو ـ یعنی اگر زندگی کی ان اہم اشیاء کو دور پھینکنے سے پرہیز کیا جائے ـ تو یقیناً ملک کی حالت اس سے کہیں بہتر ہوگی۔

• اور میری آخری سفارش: خدا سے تعلق کو مضبوط بنائیں؛ اور ہر چیز کے لئے، جیسے بارش، امن و امان اور عافیت کے لئے، ہر چیز کے لئے خدائے متعال سے مدد مانگیں، اللہ سے راز و نیاز کریں، بات کریں، خدا سے مانگیں، درگاہ رب میں گڑگڑا کر جائیں؛ ان شاء اللہ خدا اپنے فضل سے امور کی درستگی کے اسباب فراہم کرے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha